چسکا اور کیپیٹلزم
عتیق الرحمان
آپ حیران ہونگے کہ چسکے اور کیپٹلزم کا آپس میں کیا ربط ہے تو ہم آپ کو یاد کراتے چلیں کہ ھالی ووڈ اور سیاست کا بھی آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، نہ کشتی کا سیاست سے کوئی واسطہ لیکن ریگن اور ٹرمپ امریکہ کے صدر رہے ناں- تو تعلق بنانا کوئی مسئلہ نہیں- یہ ہمارے اپنے بس میں ہے کہ ہم کس کو کس کے ساتھ دکھانا ہے اور کس کو نہیں – اب دیکھتے ہیں کہ چسکے کا کیپیٹلزم سے کیا تعلق ہے- چسکا ایک لت ہے اور جسے یہ لت لگ جائےاسے چسکورا کہتے ہیں- تھوڑا اور آگے نکلیں تو چٹخارے دار خبروں کا متلاشی بھی چسکورا کہلاتا ہے- ذائقہ شناسی چاہے اناج کی ہو یا حالات حاضرہ کی دونوں ہی مضر صحت ہیں- پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ یہ کالم گوجرانوالہ سے لیکر لاھور تک کے علاقوں کے لئے نہیں ہے-دوسرا میں بتاتا چلوں کہ ذائقے کے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں بلکہ میں بے حد چسکورا واقع ہوا ہوں – گول گپے، مٹن کڑاہی، دھی بڑے، فروٹ چاٹ ، گاجر حلوہ میری مرغوب غذائیں ہیں – ذائقے کے معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا کی پچاس فیصد سے زائد جی ڈی پی کا تعلق براہ راست زبان اور ذائقے سے ہے- اگر ہم زبان کے صحیح یعنی ذائقے کے چناؤ کا صیحیح استعمال کی تر بیت شروع کر دیں تو معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں اور ہم درجنوں مسائل پر قابو پا سکتے ہیں- ہماری توندیں ایک حد کے اندر آ جائیں گی اور چلنا پھرنا آسان ہو جائے گا- کپڑا کم لگے گا اور مل مالکان کو فائدہ ہونے کی بجائے عوام کو فائدہ گا- ذائقہ گو کہ زندگی کی علامت ہے لیکن ذائقہ ہی تمام بیماریوں کی جڑ بھی ہے- اسی طرح آزادی رائے بہت ضروری ہے لیکن رائے کو معتبر بنانے کی تربیت بھی ازحد ضروری ہے- اگر ذائقے کو لا محدود نہ چھوڑا جائے ، نئے ذائقے تخلیق نہ کئے جائیں تو انسانی زندگی کو ایک نئی جلا بخشی جا سکتی ہے- کوئی قانون نئے نئے ذائقے متعارف کروانے والوں کے لئے کیوں نہی ہیں- نیا ذائقہ صرف مصنوعی طریقوں سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے اور ہر مصنوعی طریقے کے اپنے نقصانات ہیں- قدرتی غذا کے ذائقے صحت مند ہوتے لیکن مصنوعی طریقوں سے جو ذائقہ پیدا کیا جائے وہ inorganic ہے- بڑی بڑی بیکریاں مصنوعی ذائقے کے نام پر ذھر بیچ رھی ہیں -اگر ہم ذائقے کے پیچھے نہیں بھاگیں گے تو ہمارا وزن بھی نہیں بڑھے گا اور ہم کم عمر لگیں گے- لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ زبان کا چٹکورا پن ہمیں جلد بوڑھا کر دیتا ہے- اگر بچپن سے ہی چینی کا استعمال محدود ہو، تو ذیابیطس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے- گوشت ضرور کھانا چاہئے لیکن دمبے کی چرپی والا شنواری ڈش بھی ضروری نہیں ہے- جلیبی اور رس گلے کا شیرہ پینا چسکولے پن سے کہیں زیادہ آگے کی عادت ہے- بتیس دانتوں کے درمیان یہ غیر اہم سمجھا جانے والا چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا ایک حرکت کرنے والا مضبوط مسل بھی ہے اور یہ کتنا اہم ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے- انسان جسم وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتا جاتا ہےلیکن زبان آخر تک ساتھ نبھاتی ہے اور ذائقے کی حس بدرجہ اتم موجود رہتی ہے-زبان کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ سنتے ہم کان سے ہیں، دیکھتے آنکھ سے، سونگھتے ناک سے لیکن ان سب حسیات کا اظہار ھم زبان سے کرتے ہیں- زبان کے بغیر زندگی بے ذائقہ ہے – زبان نہ ہوتی تو ساری ٹھنڈی اور گرم کرنے والی مشینیں بیکار ہو جاتی، تمام کھانے پینے والی انڈسٹری بے معنی ہو جاتی- شاعر اپنی نظمیں کیسے پڑھتے، مہدی حسن، نور جہاں، لتا منگیشکر، اور کروڑوں گانے مشہور کیسے ہوتے ، سیاست اور محبت صرف اشاروں کنایوں تک محدود ہو جاتی- شعلہ بیان مقرر کیسے جزبات بھڑکاتے، میکڈونلڈ، برگر کنگ، فرنچ فرائیز، بناسپتی گھی، روح افزا یہ سب زبان کے ذائقے کی وجہ سے قائم و دائم ہیں-یعنی کیپیٹلزم صرف زبان کے چسکے کی وجہ سے زندہ ہے- لہذا ہم کہ سکتے ہیں امریکہ اگر امریکیوں کے چٹکورے پن پر قابو پا لے تو کچھ وقت اور سپر پاور کے طور پر زندہ رہ سکتا ہے- مزے کی بات یہ ہے کہ ہر جسمانی حصے کی نگہداشت کا علیحدہ ڈاکٹر ہے سوائے زبان کے- اس کو miscellaneous میں رکھا ہوا ہے یعنی ای این ٹی والا زبان کو بھی دیکھ سکتا ہےاور صرف سوموجل وہ واحد دوائی ہے جس سے اس کا علاج کیا جاتا ہے- انسانی جزبات کی ترجمان ہے زبان – حیران کن حد تک کارآمد اور چھپا ہوا جسمانی حصہ ہے- یہ ایک لمحے میں قبیلوں، گروہوں اور قوموں کو تقسیم کر دیتی ہے- یہ لاکھوں دلوں کو پلک جھپکنے میں جوڑ دیتی ہے- یہ گھر کا سکون بھی ہے اور تباھی بھی- سب سے بڑی حیران کن خاصیت یہ ہے کہ دل ، آنکھ، کان ، ناک پیھپھرے دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں ان کا ایک مخصوص کام ہے وہ وہی کرتے رہیں گے-لیکن زبان جغرافیے کے حساب سے کام کرتی ہے- زبان کو جیو سٹریٹجک حیثیت حاصل ہے- اٹک کے پار پشتو بولتی ہے تو راولپنڈی پہنچتے ہی پوٹھوھاری اور گوجرانوالہ میں پنجابی، فرانس میں فرانسیسی، امریکہ میں انگریزی، سپین میں سپینش ، چین میں چینی بولتی ہے – لیکن لاکھوں میل کا سفر طے کر نے کے بعد بھی ذائقے کو فورا پہچان لیتی ہے- یہ گول گپے، نہاری اور شکر قندی کے ذائقے کو سیکنڈ کے ھزارویں حصے میں بھی پہچان لیتی ہے- لیکن دھوکا دینے والوں نے زبان کو بھی چکمہ دے دیا ہے- زبان اگر نہیں پکڑ سکتی تو دودھ اور پانی کے ملاپ کو نہیں پکڑ سکتی- زبان یہ بھی طے کرتی ہے کہ پکوانوں میں کس کو کتنی عزت دینی ہے- رس گلے، جلیبیاں، ساگ، گوشت کو محسوس کر کے فورا دماغ کو مشورہ دیتی ہے کہ کس کو کتنی عزت دینی ہے- یہ بے وقت اور بے ضرورت بول کر صاحب اور صاحبہ کی عزت مٹی میں ملا دیتی ھے- انسانی جسم کا واحد پٹھہ ہے جسے جتنا کم استعمال کریں ، اتنا ہی فائدہ مند ہے- معاشرے جس طرح بچوں کی دماغی اور جسمانی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اگر اسی طرح زبان کے استعمال کی بھی بچپن سے ہی تربیت شروع کر دیں تو آئندہ آنے والی نسلیں ہماری احسان مند ہو نگی- فاسٹ فوڈز، بیورجز، مٹھائیاں، جنک فوڈز کا استعمال ترقی نہیں تنزلی کی طرف لے جا رھا- کیپیٹلزم اور زبان کے استعمال کو تربیت اور کنٹرول کر کے بہتری کی طرف راغب کرنا چاہیے- اگر زبان کی قوموں کی ترقی اور تنزلی کا پیمانہ بنائیں تو بہتر نتائج کی توقع ہے- زبان درازی بھی ایک موضوع ہے لیکن اس پر نہ بولنا ہی دانشمندی ہے ۔